افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں موجود چند مفاد پرست اس کی نسل کشی پر تل گئے ہیں۔ چند روپوں کی خاطر نادر جانور کو وطن عزیز سے ہمیشہ کیلئے ختم کیا جارہا ہے۔ ماہر ماحولیات اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی کوآرڈینیٹر عظمیٰ نورین نے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کچھوے دریائے سندھ میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ اس کی آٹھ اقسام ہیں اور تمام نایاب تصور کی جاتی ہیں۔ ایک دہائی سے اس کی نسل کشی اور سمگلنگ جاری ہے۔ وائلڈ لائف آپریشن نے انکشاف کیا کہ اگر حکومت نے کچھوے کی نسل کو محفوظ بنانے کیلئے عملی اقدامات نہ کئے تو پاکستان کی فش انڈسٹری بری طرح متاثر ہوسکتی ہے اور ماحولیات پر بھی اثر پڑے گا۔ ان کے مطابق کچھوے کی غیر قانونی تجارت چین، جنوبی کوریا اور ویتنام کو کی جارہی ہے جبکہ اس کا استعمال ادویات، جیلی اور کھانے کیلئے کیا جاتا ہے۔ ایک جانور کا وزن 5 سے 10 کلو گرام تک ہوتا ہے جبکہ فی جانور انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمت 1600 ڈالر (ایک لاکھ 60 ہزار روپے )ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں بھی اس کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھوے کی فارمنگ نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کو میچور ہونے میں 5 سے 20 سال لگتے ہیں۔ سندھ وائلڈ لائف کے نمائندے اعجاز مہر کا کہنا تھا کہ جون میں چین کو سمگل کئے گئے 200 کچھوے جن کی مالیت لاکھوں روپے ہے پاکستان واپس لائے جاچکے ہیں،سیلاب کی صورتحال بہتر ہوتے ہی مذکورہ جانوروں کو پانی میں چھوڑ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کچھوے کے غیر قانونی دھندے میں وسطی سندھ کے مچھیرے ملوث ہیں جن کی مالی حالت انتہائی کمزور ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پبلک ریلیشن آفیسر سید ابوبکر نے کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اندرون سندھ کچھوے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے آگاہی پروگرام شروع کرے گا،لوگوں کو اقتصادی طور پر خوشحال کرنے کیلئے ووکیشنل ٹریننگ پروگرام قالین سازی اور سلائی کڑھائی کے کورسز کرائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوششوں سے گدوبیراج سے سکھر بیراج تک کا علاقہ غیر قانونی کام کی لعنت سے پاک ہوچکا ہے۔ تاہم حکومت کو چاہیے کہ وہ آبی حیات کو محفوظ بنانے کیلئے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائے۔
پاکستانی کچھوے کی دنیا بھر میں دھوم
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں موجود چند مفاد پرست اس کی نسل کشی پر تل گئے ہیں۔ چند روپوں کی خاطر نادر جانور کو وطن عزیز سے ہمیشہ کیلئے ختم کیا جارہا ہے۔ ماہر ماحولیات اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی کوآرڈینیٹر عظمیٰ نورین نے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کچھوے دریائے سندھ میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ اس کی آٹھ اقسام ہیں اور تمام نایاب تصور کی جاتی ہیں۔ ایک دہائی سے اس کی نسل کشی اور سمگلنگ جاری ہے۔ وائلڈ لائف آپریشن نے انکشاف کیا کہ اگر حکومت نے کچھوے کی نسل کو محفوظ بنانے کیلئے عملی اقدامات نہ کئے تو پاکستان کی فش انڈسٹری بری طرح متاثر ہوسکتی ہے اور ماحولیات پر بھی اثر پڑے گا۔ ان کے مطابق کچھوے کی غیر قانونی تجارت چین، جنوبی کوریا اور ویتنام کو کی جارہی ہے جبکہ اس کا استعمال ادویات، جیلی اور کھانے کیلئے کیا جاتا ہے۔ ایک جانور کا وزن 5 سے 10 کلو گرام تک ہوتا ہے جبکہ فی جانور انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمت 1600 ڈالر (ایک لاکھ 60 ہزار روپے )ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں بھی اس کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھوے کی فارمنگ نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کو میچور ہونے میں 5 سے 20 سال لگتے ہیں۔ سندھ وائلڈ لائف کے نمائندے اعجاز مہر کا کہنا تھا کہ جون میں چین کو سمگل کئے گئے 200 کچھوے جن کی مالیت لاکھوں روپے ہے پاکستان واپس لائے جاچکے ہیں،سیلاب کی صورتحال بہتر ہوتے ہی مذکورہ جانوروں کو پانی میں چھوڑ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کچھوے کے غیر قانونی دھندے میں وسطی سندھ کے مچھیرے ملوث ہیں جن کی مالی حالت انتہائی کمزور ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پبلک ریلیشن آفیسر سید ابوبکر نے کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اندرون سندھ کچھوے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے آگاہی پروگرام شروع کرے گا،لوگوں کو اقتصادی طور پر خوشحال کرنے کیلئے ووکیشنل ٹریننگ پروگرام قالین سازی اور سلائی کڑھائی کے کورسز کرائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوششوں سے گدوبیراج سے سکھر بیراج تک کا علاقہ غیر قانونی کام کی لعنت سے پاک ہوچکا ہے۔ تاہم حکومت کو چاہیے کہ وہ آبی حیات کو محفوظ بنانے کیلئے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائے۔